آپریشنز
آپریشن مرصاد
زینب احمدی
15 دورہ
1988ء میں سپاہ پاسداران اور اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج نے مجاہدین خلق تنظیم(منافقین) کے حملوں کو پسپا کرنے اور اسلام آباد-کرند سیکٹر میں اِس تنظیم کے قبضہ شدہ علاقوں کو کلیئر کرنے کے اہداف سے مرصاد آپریشن انجام دیا۔
ایران کی طرف سے قرارداد 598 کی منظوری کے بعد مجاہدین خلق نےایک 33 گھنٹوں پر مشتمل اور 25ویں میکانائزڈ انفنٹری بریگیڈ اور عراقی فوج کے سپورٹ فائر سے، 25 جولائی 1988ء سوموار کو دوپہر اڑھائی بجے خسروی بارڈر کراس کرتے ہوئے فروغ جاویدان آپریشن شروع کیا۔
عراقی فوج کے توپ خانے کی سرحدی علاقوں پر شدید گولہ باری اس بات کا باعث بنی کہ اسلام آباد غرب اور سرپل ذہاب شہر پہلے قدم میں ہی منافقین کے قبضے میں آ گئے۔ منافقین نے شام ساڑھے چھ بجے کرند شہر میں داخل ہونے اور قبضہ کرنے کے بعد اسلام آباد کی جانب پیش قدمی شروع کی اور رات 9 بج کر 20 منٹ پر بجلی بند کر کے اور مواصلاتی لائنیں کاٹ کر اس شہر پر قبضہ کر لیا۔ اُنہوں نے اپنی حرکت کے دوران شہریوں اور ایرانی فورسز کے کچھ افراد کو شہید کیا۔
منافقین کرمانشاہ کی جانب بڑھتے ہوئے، حسن آباد کے علاقے میں فورسز کو تازہ دم کرنے کے لئے اسلام آباد سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر چہارزبر گھاٹی کے پیچھے ٹھہر گئے اور افراد اور سازو سامان کو اس گھاٹی کی پشت پر لمبی پٹی میں سپرنگ کی طرح رکھا۔ یہ گھاٹی کرمانشاہ کے مغرب میں پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر اور کرمانشاہ سے اسلام آباد غرب کی طرف جانے والی اصلی سڑک پر جو راہ کربلا کے نام سے مشہور ہے، واقع ہے۔
اس زمانے میں ایرانی کمانڈر منافقین کے حملوں کو پروپیگنڈہ جنگ سمجھتے تھے۔ حملے کی سنگینی ایرانی شہروں پر قبضے کے بارے میں عراقی اعلان کی اشاعت اور اس کے علاوہ مجاہدین خلق کے ریڈیو اعلان سے واضح ہو گئی جس میں قبضہ کیے گئے شہروں کی عوام کو اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔ سپاہ کی جنرل کمانڈ سینٹرجنوبی محاذ سے کرمانشاہ کی جانب روانہ ہوا۔ نیز ملک کے مغربی علاقے میں سپاہ کے بریگیڈ منافقین کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ 12ویں قائم بریگیڈ، جو پہلے ہی چہار زبر گھاٹی سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر تعینات تھی، وہ پہلا باقاعدہ یونٹ تھا جو 26 جولائی 1988ء کی صبح منافقین کو چہار زبر گھاٹی پار کرنے سے روکنے میں کامیاب رہا۔
جنگ کے کمانڈر حجت الاسلام اکبر ہاشمی رفسنجانی نے پاسدارن کے خصوصی بریگیڈ کے کمانڈر صادق محصولی کو فورسز بھیجنے کا حکم دیا۔ نبی اکرمﷺ بریگیڈ کے کمانڈر اسد اللہ ناصح کو علاقے میں فورسز کے ساتھ مل کر دفاعی لائن بنانے کا کام سونپا گیا تھا۔ جنگی کمانڈ کے حکم سے علی شمخانی کو تین بٹالین کی فورسز اکٹھی کرکے پل دختر- اسلام آباد روڈ پر لانے کا کام بھی سونپا گیا تاکہ منافقین کے بیس کو اسلام آباد کی ابتداء میں پیٹرول پمپ تین –راہے سے بندکر دیا جائے۔
چہارزبر گھاٹی کے سب سے اونچے حصے میں اسلام آباد-کرمانشاہ روڈ کی چوڑائی پر دو دیواری پشتے کی تعمیر سب سے اہم منصوبہ تھا جسے 12ویں قائم بریگیڈ نے پلان کیا اور جس نے منافقین کے حملوں کو روکنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
چہارزبر گھاٹی کے پیچھے ٹینکوں، گاڑیوں اور عملے کے گاڑیوں کے جمع ہونے سے یہ ممکن ہو سکا کہ ایرانی فورسز منافقین کے سازوسامان کے ایک بڑا حصے کو ابتدائی لمحات میں ہی تباہ کر دیں۔
چہارزبر گھاٹی میں منافقین کو زمین بوس کرنے اور اُنہیں مکمل طور پر گھیرے میں لینے کے بعد، مرصاد نامی آپریشن میں لڑائی کا آخری مرحلہ 27 جولائی 1988ء کو رات 10 بجے یا علی ابن ابیطالبؑ کے کوڈ سے شروع ہوا۔ مرصاد گھات لگانے کے معنوں میں ہے اور چونکہ ایرانی فورسز چہارزبر گھاٹی میں منافقین کی گھات میں تھیں اور ان پر حملہ کرنے کے لئے مناسب موقعے کی تلاش میں تھیں، لہٰذا اس نام کا انتخاب کیا گیا اور بعد میں اِس گھاٹی کا نام بدل کر مرصاد ہو گیا۔
عراقی جنگی طیاروں نے 27 جولائی کی صبح ہمدان میں شہید نوژہ ہمدان اڈے سے 36 کلومیٹر کے فاصلے پر ہمدان کے فضائی دفاعی مرکز کے مقام پر متعدد بار بمباری کی اور 6 ایرانی افسران اور نان کمیشنڈ اہلکار شہید ہوئے۔عراقی جنگی طیاروں کی مدد سے منافقین نے کوشش کی چہارزبر گھاٹی عبور کریں لیکن تین ٹیوٹا کاروں کے علاوہ جو کرمانشاہ جاتے ہوئے ایرانی فورسز کے ہاتھوں تباہ ہو گئیں، منافقین کی اکثر فورسز کے لئے چہارزبر گھاٹی عبور کرنا ممکن نہیں ہو سکا۔
آرمی ایئر فورس کے پائلٹوں نے 123 اڑانوں کے ساتھ منافقین کی پوزیشنوں کو کچل دیا۔ اسلام آباد کی آزادی کے فوراً بعد،سپاہ کی یونٹوں نے کرند کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ اس سے پہلے کہ داخلی فورسز اس شہر میں پہنچتیں، آدھی رات کو تین بجے، تین ٹرانسپورٹ ہیلی کاپٹر کرند میں اترے اور کچھ منافقین اور تنظیم کی قیادت کو شہر سے باہر لے گئے۔
اسی دوران ہوابازوں کے ہیلی کاپٹروں نے کرنل علی صیاد شیرازی کی سربراہی میں چہارزبر گھاٹی کے دہانے پر منافقین کے کالم پر بمباری کی اور ان کے فوجیوں اور بارود سے بھرے ٹرکوں کو آگ لگا دی، اس طرح کہ منافقین پہاڑوں اور سڑکوں کے اردگرد بکھر گئے۔ اور پیچھے ہٹ گئے۔ علی صیاد شیرازی کو پسپائی والے راستے کو بند کرنے اور منافقین کا کام تمام کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔ اس آپریشن میں اپنی خاص حکمت عملی بنا کر اِس نے کم سے کم وقت میں منافقین کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا۔
عراق کی جانب فرار کرتے ہوئے منافقین میں سے تقریباً دو ہزار مارے گئے۔ کچھ نے سائینائیڈ گولیاں کھا کر خود کشی کر لی اور کچھ کو گرفتار کر لیا گیا۔ مجاہدین خلق تنظیم کے کچھ سرکردہ راہنما جیسے فرہاد الفت اور سعید شاہسوندی بھی گرفتار ہونے والوں میں شامل تھے۔ اس طرح منافقین نے 29 جولائی 1988ء جمعہ کے دن باضابطہ طور پر شکست کا اعلان کیا اور پسپائی اختیار کر لی۔
عراق اور مجاہدین خلق تنظیم کے مشترکہ حملے نے اُن حالات میں جب ایران اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ مذاکرات کر رہا تھا، رائے عامہ کے سامنے ایران کی پوزیشن کو مضبوط کر دیا اور ایران کی اندرونی ہم آہنگی میں اضافہ کیا۔ منافقین کی یہ حرکت مجاہدین خلق تنظیم کی قیادت اور باقی ماندہ اراکین کے درمیان شدید اختلافات اور ان کے لیے سٹریٹیجک شکست کا سبب بنی۔
اس تنظیم کے رہنما مسعود رجوی نے عاشورہ [!] نامی ایک میٹنگ میں فروغ جاویدان آپریشن کی ناکامی کا جواز کچھ یوں بیان کیا: ’’ہم چہار زبر گھاٹی میں نہیں پھنسے، بلکہ توحید گھاٹی میں پھنس گئے، اور نظریاتی کمزوری کی وجہ سے خواہشوں، خصائل اور تمہاری آرزوؤں نے تمہیں پھنسا دیا۔‘‘ اُس نے اِس آپریشن کے بعد شکست کی بوجھل فضا کو توڑنے کے لئے یورپ سے نئی فورسز بھرتی کرنا شروع کر دی۔
سال 1996ء میں چہار زبر گھاٹی کے مشرقی جانب جو صوبہ کرمانشاہ میں دشمن کی پیش قدمی کی آخری حد سمجھی جاتی ہے، مرصاد آپریشن کے دلاوروں کی یاد میں ایک یادگار تعمیر کی گئی اور جس کا افتتاح علی صیاد شیرازی کے ذریعے سے ہوا۔