آپریشنز
والفجر مقدماتی آپریشن
لیلا حیدری باطنی
20 دورہ
والفجر مقدماتی آپریشن 6 فروری 1983ء کو فکہ اور چزابہ کے علاقوں کے درمیان غزیلہ پل اور عراق کے شہر العمارہ پر قبضہ کرنے کے ہدف سے شروع ہوا۔ یہ آپریشن جو جمہوری اسلامی ایران کی فوج اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے مشترکہ طور پر انجام دیا، عراقی فورسز کے پہلے خط کو توڑنے کے باوجود علاقہ مکمل طور پر کلیئر نہ ہونے اور بارودی سرنگوں کے وسیع میدان جیسی وجوہات کی بنا کامیاب نہیں ہو سکا۔
1983ء کے موسم خزاں میں دو آپریشن مسلم بن عقیل اور محرم کے انجام پانے کے بعد، فوج اور سپاہ کے کمانڈروں کے مابین والفجر مقدماتی آپریشن کے انجام دینے سے متعلق مذاکرات ہوئے۔ آپریشنل علاقہ ھور الہویزہ میں شمال مغرب سے جنوب مغرب تک تھا اور ایران اور عراق کی سرحد پر فکہ اور چزابہ کے درمیان واقع تھا۔ غزیلہ پل پر قبضہ جو آپریشن کے بنیادی اہداف میں سے تھا، اس کی اہمیت اس اعتبار سے تھی کہ یہ العمارہ-بصرہ سڑک اور عراقی فوج کے دو ڈویژنوں کی تعیناتی کے درمیان رابطے کا راستہ تھا۔ یہ آپریشن دو مراحل میں تین سرحدی چوکیوں پر قبضے اور اس کے بعد العمارہ شہر پر قبضے اور بصرہ سے بغداد جانے والے راستے کو بلاک کرنے کے اہداف سے انجام پایا۔ نیز اس آپریشن میں کامیابی غیر وابستہ کانفرنس (Non-aligned Conference) اور جنگ کے خاتمے پر اثر انداز ہو سکتی تھی۔ والفجر کا نام یعنی طلوع، اس لئے چنا گیا کہ یہ آپریشن عشرہ فجر کے دنوں میں کیا گیا تھا۔
29 جنوری 1983 کو حسن باقری (غلام حسین افشردی)، سپاہ کے آپریشن انٹیلی جنس افسر اور سپاہ کی زمینی فورسز کے ڈپٹی کمانڈر مجید بقایی، کربلا کیمپ کے کمانڈر اور چند دوسرےافراد اِس علاقے کی جاسوسی کےلئے گئے اِن کے بنکر میں توپ کا گولہ لگنے سے شہید ہو گئے۔
آپریشن کے آغاز کے وقت، یونٹس کے درمیان ہم آہنگی، سو فیصد تیار ہونے کا اعلان، ایک ہزار ڈمپر ٹرکوں کی تقسیم کے منصوبے پر عمل درآمد، ائیر فورس اور آرمی ایویشن کے ساتھ ہم آہنگی اور کچھ عہدیداروں کو آپریشنل کمانڈ روم میں شرکت کی دعوت دینے جیسے فیصلوں کو ترجیح دی گئی۔ خاتم الانبیاء ﷺ کیمپ میں آپریشن کے آغاز کا اعلان کے لئے اُس وقت کے وزیراعظم میر حسن موسوی، عدلیہ کے سربراہ آیت اللہ سید عبدالکریم موسوی اردبیلی اور تبریز کے امام جمعہ آیت اللہ مسلم ملکوتی کو بھی دعوت دی گئی۔
ایران کی جنگی تشکیل خاتم الانبیاء ﷺ کے مرکزی کیمپ (سپاہ اور فوج کی مشترکہ کمان کے اڈے) میں انجام دی گئی اور آپریشن کو انجام دینے کی ذمہ داری دو کیمپوں کربلا اور نجف اشرف اور فوج کے ایک حصے کی تھی۔
کربلا کیمپ کی کمان میں تیسری صاحب الزمان کور میں 14ویں امام حسینؑ، 25ویں کربلا، 17ویں علی بن ابیطالبؑ ڈویژنز، 44ویں قمر بنی ہاشمؑ آزاد بریگیڈ اور حدید کور میں 7ویں ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف، 8ویں نجف، 41 ثار اللہ ؑ، 19ویں فجر ڈویژنز اور 15ویں امام حسینؑ آزاد بریگیڈ یونٹوں میں شامل تھے۔
قدر کور جس میں 27ویں محمد رسول اللہﷺ ، 31ویں عاشورا ڈویژنز، 10ویں سید الشہداء ؑ آزاد بریگیڈ شامل اور 5ویں نصر آزاد ڈویژن میں جواد الائمہؑ، امام رضاؑ اور امام صادقؑ بریگیڈز نجف کیمپ کے تحت یونٹوں میں شامل تھے۔ اس آپریشن میں فوج کی 16ویں آرمرڈ ڈویژن اور 84ویں خرم آباد آزاد بریگیڈ نے بھی حصہ لیا۔
عراقی فوج کی جانب سے جس نے آپریشنز میں کئی ایرانی فتوحات کے بعد اپنی فورسز میں اضافہ کیا تھا، اس کی چوتھی کور چار ڈویژنوں کے مجموعہ کے ساتھ ان (ایرانی) فورسز کے سامنے تھی۔
آپریشن کے آغاز سے چند روز قبل عراقی افواج کی نقل و حرکت میں اضافہ ہوا اور ایسا لگتا تھا کہ آپریشن کے بارے میں خبر لیک ہو گئی ہے۔ لیکن قیاس آرائیوں کی بنیاد پر آپریشن کو منسوخ کرنا ممکن نہیں تھا۔ دوسری طرف اس وقت کے صدر حجت الاسلام علی خامنہ ای غیر وابستہ کانفرنس میں شرکت کرنے جا رہے تھے اور کمانڈروں کی خواہش تھی کہ وہ بھرپور تیاری سے کانفرنس میں شرکت کریں۔
والفجر مقدماتی آپریشن 6 فروری 1983ء کو رات ساڑھے نو بجے یا اللہ کے کوڈ کے ساتھ شروع ہوا۔ عراقی کمین گاہوں پر پانچ سیکٹروں رشیدہ کے شمال اور جنوب سے طاووسیہ چوکیوں تک حملہ شروع کیا گیا۔کوڈ کے اعلان سے چند گھنٹے پہلے سے آپریشنل سیکٹر میں فورسز کی نقل و حرکت کے باوجود، کیونکہ اِن سیکٹروں میں عراقی دفاعی لائنوں میں خاردار تاروں اوربے ترتیب بارودی سرنگوں سے بھرے تین متوازی راستے تھے، وہ ایک ہی وقت میں لائنوں کو عبور کرنے میں ناکام رہے۔ اُن میں سے کچھ کمین گاہوں میں رکے رہے، کچھ دوسرے لڑائی میں مصروف ہو گئے اور کچھ لڑائی کے علاقے تک نہیں پہنچے۔ یہ رکاوٹیں اتنی زیادہ اور وسیع تھیں کہ اس آپریشن کو رکاوٹوں کی جنگ بھی کہا جاتا ہے۔ نجف اور کربلا کیمپوں سے پانچ بریگیڈز نے بارودی سرنگوں کو صاف کرنے اور عراقی فوج کی دفاعی لائنوں کو توڑنے کے لیے آہستہ آہستہ پیش قدمی کی اور پہلا متوازی راستہ عبور کر لیا۔ صبح تک یہ واضح ہو گیا کہ آپریشن ناکام ہو چکا ہے اور اسے مزید جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔
آپریشن کے دوسرے دن15ویں امام حسن ؑ بریگیڈ اور8ویں نجف ڈویژن نے وھب اور فکہ کی چوکیوں پر قبضہ اور دشمن کی 704 بریگیڈ کو تباہ کر دیا۔ لیکن اُنہیں عراقی فورسز کی زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور فورسز کی جگہ کی تبدیلی اور اجتماع، جنگی تنظیم کی تکمیل اور رکاوٹیں کھڑی کیں۔ درحقیقت عراقی فوج نے حکمت عملی کی بنیاد پر فرنٹ لائن فورسز کو شامل کرنے سے گریز کیا۔ اِسی طرح سپاہ کی فورسز ساری رات آپریشن کے شمالی سیکٹروں اور عمقر جنگل کے سیکٹر میں عراقی کمین گاہوں سے لڑائی میں مصروف رہے۔ بعض جگہوں پر اُنہوں نے عراقی فورسز فراہم کرنے والے پوائنٹ کو تباہ کیا یا اُنہیں پسپا ہونے پر مجبور کیا اور بعض سیکٹروں میں پیش قدمی کی لیکن بعض سیکٹروں میں رکاوٹیں عبور کرنے میں ناکام رہے۔ بعض یونٹوں کی فورسز جو دوسرے راستے تک پیش قدمی کر چکی تھیں، دوسری فورسز کے ساتھ مکمل ہم آہنگی نہیں کر سکیں۔ اِس طرح عراقی فورسز کے بہت زیادہ دباؤ اور بھاری جانی نقصان ہونے کا سامنا کرنا پڑا اور بعض عقب نشینی پر مجبور ہوئے اور بعض محاصروں میں گھرے رہے۔
راہ میں حائل رکاوٹوں کی چوڑائی، گہرائی اور عراقیوں تک پہنچنے کے راستے میں آنے والی متعدد خندقوں نے مجاہدین سے کاروائی کی رفتار چھین لی۔ دوسری طرف علاقے کا کلیئر نہ ہونا، بارودی سرنگوں کا پھیلاؤ اور عراق کا مجاہدین خلق تنظیم (منافقین) جاسوسی نیٹ ورک کے ذریعے سے آپریشن کی انجام دہی سے باخبر ہونا اور اُن کا اپنی فورسز کو عراق کے اختیار میں دینا، دو آپریشنل سیکٹروں میں محدود صلاحیت، ریتلی زمینوں کی بے اعتباری اور آپریشن کے عمومی اہداف حاصل کرنے میں عراقی فورسز کی شدید مزاحمت جیسے عوامل نےبنیادی کردار ادا کیا اور حالات کو عراقی فورسز کے حق میں بدلنے کا باعث بنے۔
عراقی فوج کے آپریشن سے باخبر ہونے اور ہاتھ میں آنے والے راستوں کی محدودیت کی وجہ سے آپریشن کے سلسلے کو ایک رات کے لئے ملتوی کر دیا گیا اور 6 فروری 1983ء کی رات یونٹوں نے اپنے سیکٹروں کے راستوں کو کھول لیا۔
7 فروری کو آپریشن کا دوسرا مرحلہ رات 9 بجے یا اللہ کوڈ کے اعلان کے ساتھ شروع ہوا جس کا مقصد عراقی فوج کی فورسز اور ساز و سامان کو تباہ کرنا تھا۔ حملے کے آغاز کے ساتھ ہی عراقی فوج کی کمان نے تین رات پہلے کی طرح فرنٹ لائن فورسز کو شامل کرنے سے پرہیز کیا اور پیچھے ہٹنے کا حکم دیا۔
دوسری طرف سپاہ کی فرنٹ لائن فورسز کی کثیر تعداد میں عراقی کمین گاہوں سے لڑائی اس حد تک تھی کہ مجاہدین یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ عراقی فورسز کی ایک مسلسل لائن سے لڑ رہے ہیں۔ایک طرف فورسز کو متعدد رکاوٹوں کا سامنا، بعض راہنماؤں کی گم شدگی، متعدد فورسز کے افراد کا بارودی سرنگوں پر چلے جانا، عراقی فوج کی مسلسل فائرنگ فورسز کے درمیان چینلز تک پہنچنے میں ناہم آہنگی، مخالف فورسز کی ہوشیاری اور اُن کے ایرانی فورسز کے اقدامات پر احاطہ، جس کے ساتھ عراقی فورسز کی شدید مزاحمت اور مغربی راستوں پر اُن کا کنٹرول، فورسز کے وقت کا ضیاع اور محدود اور بے ترتیب پیش قدمی اور بعض سیکٹروں میں پیش قدمی کا نہ ہونا بھی تھا۔ چنانچہ 10 فروری صبح پانچ بجے ایرانی فورسز کو حکم دیا گیا کہ آپریشن کی پہلی رات والی پوزیشنوں تک عقب نشینی کریں اور جانی نقصان میں اضافے کو روکنے کے لئے آگے بڑھنے سے صرف نظر کریں۔ آپریشن کی ناکامی کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک وجہ یہ تھی کہ العمارہ کا مشرقی علاقہ جنگ سے پہلے عراقی فوجی مشقوں کا مقام تھا اور عراقی فوج کے کمانڈروں کو اس علاقے سے متعلق کافی علم اور کنٹرول حاصل تھا۔
والفجر مقدماتی آپریشن میں ایرانی شہداء، قیدیوں، لاپتہ اور زخمیوں کی تعداد 11172 اور عراقی فوج کے ہلاک، قید اور زخمی ہونے والوں کی تعدا د 1163 افراد تھی۔ نیز اس آپریشن میں عراقی فوج کے چالیس ٹینک اور عملہ بردار گاڑیاں اور پانچ طیارے تباہ ہو گئے۔
والفجر مقدماتی آپریشن میں 27ویں محمد رسول اللہﷺ ڈویژن کی ایک بٹالین عراقی فورسز کے محاصرے میں آ گئی اور اس بٹالین کے تمام مجاہدین شہید ہو گئے۔ رسول ملاقلی پور نے اِس واقعے پر 1986ء میں فلم’’ رات میں پرواز‘‘ (پرواز در شب) بنائی۔
والفجر مقدماتی آپریشن جسے پہلے والفجر کا نام دیا گیا تھا، اِس کے ناکام نتائج کی وجہ سے والفجر مقدماتی کا نام دے دیا گیا۔ اِس کے بعد والفجر کے نام سے آپریشنز کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو والفجر 10 تک جاری رہا۔