اشخاص

اسماعیل دقائقی

زینب احمدی
12 دورہ

اسماعیل دقایقی بدر ڈویژن کے کمانڈر تھے جو 18 جنوری 1987 کو شلمچہ کے علاقے میں کربلا 5 آپریشن میں شہید ہوئے۔

اسماعیل دقایقی  29 جون 1954 کو بہبہان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد  کا نام قنبر تھا اور وہ درزی تھے اور والدہ کا نام نصرت تھا[1]۔ انہوں نے 1970 میں  اہواز شہر میں نیشنل  آئل کمپنی آرٹ اسکول میں داخلہ کا امتحان پاس کرنے کے بعد اپنی تعلیم جاری رکھی۔ 1971 میں، آرٹ اسکول کے اپنے دوسرے سال میں، اسماعیل نے  محسن رضائی  اور دیگر  دوستوں کے ہمراہ  ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جو بعد میں "منصوورن" گروپ بن گئی (یہ ایک  ایسا گروہ تھا جس نے پہلوی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے خفیہ اور مسلح طریقہ اپنایا تھا)[2] ۔ نومبر 1974 میں ان کو  پہلوی مخالف سرگرمیوں کے لیے چار دیگر افراد کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا اور قانونی عمر میں کمی کی وجہ سے انہیں دو ماہ تک اصلاحی مرکز میں نظر بند رکھا گیا تھا، جس میں  تقریباً انیس دن قید تنہائی میں گزارے[3]۔ 1974 میں، وہ  اہواز یونیورسٹی کی فیکلٹی آف ایگریکلچر میں آبپاشی کی کے مضمون میں پاس ہوئے، لیکن ایک وسیع ماحول میں رہنے اور اپنے جنگجو دوستوں میں شامل ہونے کے لیے، انہوں نے 1976 میں  قومی امتحان کے لیے اندراج کیا  اور آخر کارتہران یونیورسٹی میں تعلیمی علوم میں ایسوسی  ایٹ کے مضمون میں پاس ہوگئے۔ اس کے بعد وہ تہران طلباء کی اسلامی انجمن کے رکن بنے  اور پھر" منصورون" گروپ کی رکنیت  اختیار کر لی[4]۔

 شہید دقایقی نے  1977میں  امیدیہ جامع مسجد میں ایک بڑی لائبریری قائم کی، جہاں بظاہر  قرآنی تفسیر اور عقائد کے دروس  کا اہتمام کیا لیکن اصلی ہدف  امام خمینی اور سر گرم علماء  کے پیغامات پہونچانا تھا[5] ۔ شہید کی انقلابی سرگرمیاں انقلاب اسلامی کی فتح کے بعد بھی جاری رہیں۔ 1979 میں طلبہ تنظیموں نے مرکزی تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا جس کے لیے انجمن اسلامی کے اراکین نے منشور  لکھنے کے لیے باقاعدہ نشستیں رکھیں  جن  میں  مجاہدین خلق پارٹی  سے وابستہ طلبہ کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ  منشور سے امام خمینی کا نام کاٹ دیا جائے، جب کی اس کے مد مقابل  اسماعیل دقائقی ان طلباء میں سے تھے جن کا ہم و غم یہی تھا کہ اصل  ولایت فقیہ  اور امام خمینی کا نام منشور  کا حصہ بنے۔

1979میں، دقائقی نے دوسرے دوستوں کے ساتھ مل تعمیر وطن کے  منصوبے کا آغاز کیا [6]۔ 3جون 1979 کو انہوں نے  پھوپھی کی بیٹی معصومہ ہمراہی  سے شادی کی[7]۔  جولائی1979 کے اواخر  میں، انہوں نے  تیس اراکین کا اندراج  کر کے " سپاہ پاسداران " کی بنیاد ڈالی[8] ۔ 1979 میں، انہوں  نے خوزستان اور اس کے مضافاتی علاقوں  میں پاسداران انقلاب کی تشکیل  میں تعاون کیا اور سپاہ کی چھاونیوں  میں کمانڈر سلیکشن شعبے کے انتخاب کے انچارج رہے۔ جنگ سے پہلے، اگرچہ وہ سپاہ پاسداران کے رابطہ دفتر کے انچارج تھے لیکن انہوں نے عراق کے ساتھ سرحدی تنازعات کو کنٹرول کرنے میں محمد جہاں آرا کے ساتھ مل کر ایک موثر کردار ادا کیا[9]۔

ایران کے خلاف عراق کی مسلط کردہ جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی وہ  اہواز میں 92ویں آرمرڈ ڈویژن کے "وار روم" میں پاسداران انقلاب کی نمائندگی کرتے ہوئے چند منٹوں کے لیے شرکت کرتے تھے۔ 23 اکتوبر 1980کو، وہ آزادگان کے میدانی علاقے میں گئے اور سوسنگرد کور کی کمان سنبھالنے کے بعد، سوسنگرد  دفاعی لائنوں کو منظم اور مضبوط کرنے کا کام شروع کیا۔ دسمبر 1981 تک، وہ خوزستان  کے متعلقہ جنگی علاقوں کے کمانڈروں کی تمام میٹنگز میں موجود رہے اور باقاعدگی سے آبادان، ماہ شہر، دارخوین، سوسنگرد، ہوویزہ، شوش اور دزفول محاذوں کا دورہ کرتے رہے[10]۔

اسماعیل دقایقی نے  30 اکتوبر 1981 کوبوستان کے علاقے میں کیے جانے والے  آپریشن طریق القدس میں حصہ لیا [11]، اس کے علاوہ   22 مارچ 1982 شوش اور دزفول کے علاقوں میں  فتح المبین آپریشن میں آپریشنل فورس کے طور پر شہید بقائی (فجر آرمی کے کمانڈر)  کے شانہ بشانہ سر گرم عمل رہے[12]،  مزید بر آں  30 اپریل 1982 سے 24 مئی 1981 تک دریائے  کارون [13]کے مغرب میں  کمانڈنگ کیمپوں میں کردار ادا کیا۔ اور آپریشن بیت المقدس کے بعد سپاہ پاسداران  ایریا -1 میں شفٹ ہوگئے اور نومبر 1982 سے انہوں نے قم اور مرکزی صوبوں میں تحفظ یونٹ کے نائب سربراہ کی ذمہ داری سنبھالی۔ اس تنظیم کی سرگرمیوں میں  چھاونیوں  پر چھاپہ مارنا، سیمینارز کا انعقاداور  غیر ملکی اسلامی وفود کی حفاظت و دیگر کئی خدمات  شامل ہیں۔ اس کے علاوہ  شہید نے دینی مدرسہ میں بھی  زانوئے تلمذ  طے کیے[14]۔

1983 میں، دقائقی نے محسن رضائی (آئی آر جی سی کے کمانڈر انچیف) کو ایک خط لکھا جس میں ان سے درخواست کی  کہ ان کی موجودہ ذمہ داری کو ہٹا دیں تاکہ وہ  جنگی محاذوں پر آسانی سے رہ سکیں۔ محسن رضائی نے مالک اشتر پلان (آئی آر جی سی کے سینئر کمانڈروں کے لیے کلاسیکی فوجی تکنیکوں سے زیادہ واقف ہونے کے لیے ایک تربیتی کورس) کو نافذ کرنے کی ذمہ داری  ان کو سونپ دی۔ دقائقی نے یہ منصوبہ 1984 کے موسم گرما تک مکمل کیا۔ انہوں نے خیبر آپریشن میں حصہ لیا اور بعد میں رجمنٹ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ڈویژن میں مہدی زین الدین (ڈویژن کے کمانڈر) کے ساتھ ڈویژن کو منظم کرنے میں مصروف رہے اور ڈویژن کے پلاننگ اور آپریشنز یونٹ کا انچارج سنبھالا [15]۔

بیت المقدس آپریشن کے بعد، عراقی مجاہدین بسیج یونٹ (عراقی جوان مجاہدین جو صدام سے لڑنے کے لیے اہواز سے بیس کلومیٹر دورشہید صدر بیرک میں تعینات تھے) تشکیل دی گئی۔ کچھ عرصہ بعد، ان افواج کو امام صادق (ع) بریگیڈ میں منظم کیا گیا، اور 1984 کے آخر میں، اسماعیل دقایقی نے بریگیڈ کی کمان سنبھالی۔ بدر آپریشن میں حصہ لینے کے بعد، بریگیڈ کا نام تبدیل کر کے "نویں بدر بریگیڈ" رکھ دیا گیا[16]۔

اسماعیل دقایقی کی کمان کے دوران نویں بدر بریگیڈ نے پانچ آپریشنز میں حصہ لیا۔ آپریشن قدس 4، جو 23 جولائی 1985 [17]کو "ہور الہویزا" میں جھیل ام الناج کے ایک حصے کو آزاد کرانے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس آپریشن کے لیے بریگیڈ کی افواج کو تیار کرنے کے لیے، انہوں  نے تیراکی، غوطہ خوری اورواٹر بوٹ چلانے  کے تربیتی کورسز کا انعقاد کیا۔ آپریشن عاشورہ 4، جو 23 اکتوبر 1985 [18]کو ام النعاج جھیل کو مکمل طور پر آزاد کرانے کے لیے کامیابی سے انجام دیا گیا۔ عراقی کمانڈ ہیڈ کوارٹر کے پیچھے آٹھ کلومیٹر طویل آبی گزرگاہ بنانے کے دقایقی کے منصوبے نے آپریشن کی رات عراقی افواج کو حیران کر دیا اور فوری نتیجہ حاصل کیا۔ اس آپریشن کے بعد یکم ستمبر 1986 [19]کو حاج عمران کے علاقے میں شمالی محاذ پر آپریشن کربلا 2 کیا گیا۔ بدر بریگیڈ نے جنوبی محاذ پر ابو الخصیب کے علاقے میں آپریشن کربلا 4 میں بھی حصہ لیا، جو 24 دسمبر 1986 [20]کو شروع ہوا تھا [21]  آپریشن شروع ہونے سے پہلے، اسماعیل دقایقی نے تین سو سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ عراقی کمانڈرز کی وردی پہن  کر عراقی افواج پر پیچھے سے حملہ کریں [22] شلمچہ کے علاقے میں آپریشن کربلا 5 ، 9 جنوری 1987  کو شروع ہوا اور 21 فروری تک جاری رہا۔ اس آپریشن میں بدر بریگیڈ کو بدر ڈویژن میں ترقی دی گئی۔ بدر ڈویژن کو دو آپریشنل علاقوں موسیان اور ہور میں موجود رہنے کا  ٹارگٹ سونپا گیا تھا اور اس وجہ سے اس نے اپنی افواج کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا[23]۔

اسماعیل دقایقی اتوار، 18 جنوری 1987 کو سر پر گولی لگنے سے اس وقت شہید ہو گئے تھے جب وہ شلمچہ آپریشنل علاقے میں معلومات اکٹھی کرنے  کی غرض سے اگلے مورچے تک گئے۔ ان کی قبر اومیدیہ ٹاون میں واقع ہے[24]۔

2015میں، اہواز میں دریائے کارون پر بنائے گئے تیسرے پل کو شہید اسماعیل دقایقی کے نام سے منسوب کیا گیا [25]۔  اس کے علاوہ، جون 2014 میں، اہواز میں اسماعیل دقایقی کے مجسمے کی نقاب کشائی کی گئی۔

 

 

[1] فرهنگ اعلام شهدا: استان خوزستان، ج1، تهران: شاهد، 2016، ص555.

[2] دائرة‌المعارف انقلاب اسلامی، ج3، تهران: سوره مهر، 2015، ص360.

[3] سعیدی، مصطفی، خورشید بدر، تهران: واحد تبلیغات و انتشارات سپاه پاسداران انقلاب اسلامی، 1990، ص13 و 17 و 18؛ شاهد یاران، ش87، دسمبر 2012، ص5 و 15.

[4] سعیدی، مصطفی، خورشید بدر، ص17 و 18؛ مرج، علی، نیمه پنهان ماه4: دقایقی به روایت همسر شهید، تهران: روایت فتح، 1992، ص20؛ فرهنگ اعلام شهدا: استان خوزستان، ج1، ص555؛ شاهد یاران، سابق، ص6.

[5] شاهد یاران، سابق، ص۶.

[6] سعیدی، مصطفی، خورشید بدر، ص25 و 26؛ مرج، علی، نیمه پنهان ماه4، ص۹.

[7] مرج، علی، نیمه پنهان ماه4، ص9.

[8] سعیدی، مصطفی، خورشید بدر، ص26.

[9]  سابق ، ص28 و 29.

[10] سابق ، ص30 و 31.

[11] رشید، محسن، اطلس جنگ ایران و عراق، تهران: مرکز مطالعات و تحقیقات جنگ سپاه پاسداران انقلاب اسلامی، چ سوم، 2000، ص47.

[12] سابق ، ص48.

[13] سابق ، ص49.

[14] سعیدی، مصطفی، خورشید بدر، ص32ـ30؛ شاهد یاران، سابق ، ص9.

[15] سعیدی، مصطفی، خورشید بدر، ص38ـ33.

[16] شاهد یاران، سابق ، ص38.

[17] نخعی، هادی؛ فراهانی، حمیدرضا، روزشمار جنگ ایران و عراق، کتاب سی‌وهفتم: توسعه روابط با قدرت‌های آسیایی، تهران: مرکز مطالعات و تحقیقات جنگ سپاه پاسداران انقلاب اسلامی، 2004، ص483.

 

    [19] رشید، محسن، اطلس جنگ ایران و عراق، ص88.

[20] سابق ، ص76.

[21] شاهد یاران، سابق ، ص81 و82.

[22] رشید، محسن، اطلس جنگ ایران و عراق، ص77.

[23] سعیدی، مصطفی، خورشید بدر، ص76 و 80؛ شاهد یاران، سابق ، ص82.

[24] فرهنگ اعلام شهدا: استان خوزستان، ج1، ص555، شاهد یاران، سابق ، ص11.

[25] روزنامه کارون، ش3318، 10 جنوری 2014، ص4.