اشخاص

احمد متوسلیان

ندا اربع
25 دورہ

احمد متوسلیان (?-1953) دفاع مقدس کے ابتدائی سالوں میں  محمد رسول اللہ بریگیڈ27 کے کمانڈر تھے۔ ان کو 5 جولایی 1982 جنوبی لبنان میں اسرائیلی ایجنٹوں نے اغوا کیا تھا اور اس کے بعد سے آج تک لاپتہ ہیں۔

احمد متوسلیان 4 اپریل 1953 کو تہران کے ایک "سید اسماعیل" نامی محلے میں پیدا ہوئے۔ 1972 میں انہوں نے انڈسٹریل انسٹیٹیوٹ سے بجلی کا ڈپلومہ حاصل کیا اور ایک نجی کمپنی میں کام کرنا شروع کیا۔ 1974میں انہوں نے فوج میں شمولیت اختیار کی۔ شیراز میں، انہوں نے ٹینک کا تربیتی کورس مکمل کیا اور پھر ان کو سیکنڈ سارجنٹ اور ٹینک کمانڈر کے عہدے کے ساتھ سرپل ذہاب بھیجا گیا[1]۔

1971 سے انہوں نے تہران اور لرستان میں پہلوی حکومت کے خلاف خفیہ جدوجہد شروع کی۔ 1976میں، انہوں نے تہران یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے الیکٹرانک انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ 1977 میں، قم اور تبریز میں مزاحمتی تحریکوں کے دوران، وہ تہران کے جنوبی محلوں میں مظاہروں کے رابطہ کار تھے۔ اسی سال کے آخر میں وہ خرم آباد چلے گئے۔ انہیں 6 ستمبر 1978 کو گرفتار کر لیا گیا۔ وہ تین ماہ تک خرم آباد کی "فلک الافلاک"جیل میں قید تنہائی میں رہے۔ 28 نومبر 1978  کو انہیں متعدد سیاسی قیدیوں کے ساتھ رہا کیا گیا اور وہ تہران واپس آ گئے۔[2]

انقلاب اسلامی کی فتح کے ساتھ ہی متوسلیان انقلابی کمیٹیوں میں سرگرم ہو گئے۔ پاسداران انقلاب کی تشکیل کے ساتھ، انہوں نے ضربت سپاہ یونٹ ایریا6 کا انچارج سنبھالا۔ مارچ 1979 میں، ضد انقلابی گروہوں کا مقابلہ کرنے کے لیےوہ ترکمن صحرا  چلے گئے ۔  پھر، کردستان میں علیحدگی پسند اور ضد انقلاب گروہ کا فتنہ جب عروج کو پہنچا وہ رضاکارانہ طور پر "بوکان" چلےگیے۔ اس وقت سے، وہ بوکان، بانہ، سقز، مہاباد، پاوہ، مریوان، جوانرود اور راونسر کے شہروں میں جھڑپوں کے خاتمے  کے لیے فعال رہے۔

 

1979 میں، بانہ، پاوہ، اور مریوان کے سپاہ کمانڈر کے طور پر، انہوں نے کردنشین شہروں جیسے بوکان، مہاباد، سقز، اور بانہ سے ضد انقلابیوں کا صفایا کرنے میں کردار ادا کیا۔ 3 جنوری 1980 کو، مغربی آپریشنز کے کمانڈر محمد بروجردی نے متوسلیان کو پاوہ-کرمانشاہ ہائی وے کو آزاد کرانے کا مشن دیا تاکہ اس علاقے کو کلیئر کرتے ہوئے، وہ پاوہ کا محاصرہ ختم کریں۔جنوری 1980 کے اوائل میں، وہ مریوان گئے اور شہر کو آزاد کرایا۔ جولائی1980 کو ہی محمد بروجردی نے ان کو اسی شہر کی IRGC کا کمانڈر مقرر کر دیا۔[3]

اکتوبر 1981 میں، وہ محمد ابراہیم ہمت اور محمود شہبازی کے ساتھ حج پر گئے۔ جنوری 1982 کو "خرمال" کے علاقے مریوان اور پاوہ میں آپریشن محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) متوسلیان اور ہمت کو سونپا گیا۔ آپریشن کا مقصد "اورمانات" کے علاقے میں بین الاقوامی سرحد کو کلیئر اور محفوظ بنانا تھا۔[4]

آپریشن کے بعد، اس وقت کے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر، محسن رضائی نے 4 جنوری 1982کو احمد متوسلیان اور محمد ابراہیم ہمت کو ایک جنگی بریگیڈ کی تشکیل کی تجویز دی۔ آقاے متوسلیان بریگیڈ کے قیام کے لئے 14 جنوری 1982 کو ہمت اور شہبازی کی معیت میں سپاہ مریوان، پاوہ اور ہمدان سپاہ سے ایک سو بیس افراد کو لے کر خوزستان پہنچے اور 6 فروری کو  محمد رسول بریگیڈ27  کا قیام عمل میں آیا۔ [5]

بریگیڈ کی تشکیل کے بعد پہلا آپریشن فتح المبین تھا، جو 22 مارچ 1982کو شروع ہوا، اور  متوسلیان کی قیادت میں محمد رسول اللہ بریگیڈ27 نے اس میں حصہ لیا۔ اس آپریشن کا مقصد دریائے کرخہ کے مغربی علاقے اور دیزفول-دہلران ہائی وے کو آزاد کرانا تھا۔[6]

دوسرا آپریشن جس میں اس بریگیڈ نے متوسلیان کی کمان میں حصہ لیا وہ بیت المقدس آپریشن تھا اور اسی آپریشن کے نتیجے میں 24 مئی 1982 کو خرمشہر آزاد ہوا۔[7]

خرمشہر کی آزادی کے بعد 6 جون 1982 کو جنوبی لبنان میں قدس حکومت کی قابض افواج اور صیہونیوں کے حملے شروع ہوئے۔ اسلامی جمہوریہ ایران، جس نے لبنان پر قبضے کو بیت المقدس آپریشن اور خرمشہر کی آزادی کے ردعمل کے طور پر دیکھا، تو لبنان کی حمایت کا فیصلہ کیا، چنانچہ اس نے متوسلیان کی سربراہی میں ایک اعلیٰ فوجی وفد شام بھیجا[8]۔پہلا گروپ11 جون کو دمشق پہنچا اور زبدانی بیرکوں میں قیام پذیر ہوگیا[9]۔24 جون کو متوسلیان فوجیوں کے فرائض کا تعین کرنے کے لیے تہران روانہ ہوئے۔ 26 جون کو ملک کے سیاسی اور عسکری حکام کے ساتھ ایک ملاقات میں امام خمینی نے کہا کہ صیہونی حکومت کا شام اور لبنان پر حملہ کرنے کا اقدام ایران کی توجہ اس کے اصل مسئلے سے ہٹانے کی سازش ہے جو صدام کی فوج کی جارحیت کا مقابلہ کرنا تھا۔ لہذا، انہوں نے اعلان کیا کہ "بیت المقدس کا راستہ کربلا سے گزرتا ہے" اور فوجوں کو واپس آنے کا حکم دے دیا۔ متوسلیان بھی فوجیوں کی بتدریج واپسی کے لیے شام کے لیے روانہ ہو گئے۔[10]

25 جولائی 1982 کی صبح ایرانی سفارت خانے کے ناظم الامور سید محسن موسوی زبدانی بیرکوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم برگیڈ کے دستوں کے مقام پر گئے اور متوسلیان کو بتایا کہ صیہونی افواج نے بیروت میں واقع ایرانی سفارتخانے کا محاصرہ کر لیا ہے اور ہمیں تمام سیکرٹ دستاویزات کو ختم کرنا ہوگا۔ یہ سن کر متوسلیان دیگر حکام کے ساتھ، بیروت روانہ ہوگئے ۔[11]

5 جولائی 1982 کی سہ پہر کو بیروت کے شمال میں چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر "بربارا" چیک پوسٹ نے سفارت خانے کی ایک گاڑی کو روکا جس میں ایران کے سیاسی اور فوجی حکام تھے، صیہونی فورسز نے ان تمام مسافروں کو اغوا کر لیا۔ احمد متوسلیان سمیت گاڑی میں تقی رستگار مقدم (افواج کے تربیتی اور حکمت عملی یونٹ کے سربراہ)، سید محسن موسوی (اسلامی جمہوریہ ایران کے انچارج  کیمپ) اور کاظم اخوان (اسلامی جمہوریہ ایران نیوز ایجنسی کے فوٹوگرافر)  موجود تھے۔ اسی دن، اسرائیلی ریڈیو نے اعلان کیا کہ جنرل احمد متوسلیان کو بربارا چوکی پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔[12]

اس کے بعد آج تک ان کے بارے میں کوئی با وثوق خبر موصول نہیں ہوئی ہے کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا ۔[13]

 

 

[1] ره‌یافتگان وصال، تهران: مرکز فرهنگی سپاه، 1994، ص99؛ نیری، حسین، قصه فرماندهان/9: فرمانده جدید، تهران: سوره مهر، 2002، ص8 و 9.

[2] نیری، حسین، فرمانده جدید، ص10؛ بابایی، گل‌علی، در هاله‌ای از غبار، تهران: صاعقه، چاپ ششم، 2012، ص21ـ17؛ ره‌یافتگان وصال، ص99 و 100.

[3] ره‌یافتگان وصال، ص100؛ بابایی، گل‌علی، در هاله‌ای از غبار، ص22 و41؛ نیری، حسین، فرمانده جدید، ص10 و 11.

[4] بابایی، گل‌علی، در هاله‌ای از غبار، ص78 و 79؛ ره‌یافتگان وصال، ص101؛ رشید، محسن، اطلس جنگ ایران و عراق، تهران: مرکز مطالعات و تحقیقات جنگ سپاه پاسداران انقلاب اسلامی، چ دوم، 2010، ص57.

[5] بابایی، گل‌علی، در هاله‌ای از غبار، ص83ـ79؛ نیری، حسین، فرمانده جدید، ص13

[6] رشید، محسن، اطلس جنگ ایران و عراق، ص48؛ بابایی، گل‌علی، در هاله‌ای از غبار، ص92 و 97.

[7] ره‌یافتگان وصال، ص101 و 102.

[8] سابق، ص102؛ بابایی، گل‌علی، در هاله‌ای از غبار، ص153 و 160؛ داوودآبادی، حمید، کمین جولای 82، تهران: غنچه، 2005، ص392.

[9] بابایی، گل‌علی، در هاله‌ای از غبار، ص16 و 166.

[10] سابق، ص177 و 181.

[11] ]. داوودآبادی، حمید، کمین جولای 82، ص393

[12] بابایی، گل‌علی، در هاله‌ای از غبار، ص202ـ200؛ ره‌یافتگان وصال، ص103.

[13] داوودآبادی، حمید، کمین جولای 82، ص393 و 394.