مفاہیم اور اصطلاحات

وینسنس بحری بیڑہ

سجاد نادری پور
24 دورہ

3 جولائی 1988 میں امریکی بحری بیڑے "ونسینس" نے خلیج فارس میں ایرانی ہوائی جہاز کو مار گرایا تھا جس میں 290 مسافر سوار تھے اور ان میں بارہ سال سے کم عمر کے 66 بچے شامل تھے اور یہ سب کے سب شہید ہو گئے تھے۔


1984 میں امریکی حکومت نے خلیج فارس کے آزاد پانیوں میں بحری گشت لگانے کا اعلان کیا تاکہ ایران عراق جنگ میں مصروف ممالک کی جانب سے بین الاقوامی بحری جہازوں پر متوقع حملوں کو روکا جا سکے۔ تین سال بعد 17 مئی 1987 میں سٹارک نامی امریکی جنگی بحری جہاز کو، جو خلیج فارس کے آزاد پانیوں میں تھا، دو عراقی میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعہ کے بعد امریکا نے خطے میں اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کردیا اور خلیج فارس میں موجود بحری بیڑوں کے حکام کے اختیارات میں بھی توسیع کردی یہاں تک کہ مدمقابل کی طرف سے متوقع کارروائی کا اگر ارادہ بھی ظاہر ہو تو یہ بیڑے اپنی حفاظت کے لیے ہر ممکن لازمی قدم فورا اٹھا سکیں۔ اس توسیع میں یہ امر بھی شامل تھا کہ کوئی بھی اجنبی جہاز پانچ میل کے اندر آجائے اور اپنا تعارف نہ کروائے تو اسے دفاع کے طور پر مار گرایا جائے(1)۔


20 مئی 1988 کو ونسینس بحری جہاز خلیج فارس میں داخل ہوا۔ تقریبا دو ماہ بعد 3 جولائی 1988 کو ایران ایئر کی پرواز نمبر 655 جو دو سو نوے مسافروں کو دوبئی کے لئے لے کر بیس منٹ کی تاخیر سے روانہ ہوئی، اس کو نشانہ بنانے کے لئے مذکورہ بحری جہاز نے سمندر سے ہوا میں مار گرانے والے دو میزائل فائر کئے اور صبح نو بج کر چوّن منٹ پر اس ایرانی مسافر بردار ہوائی جہاز کو ہوا میں تباہ کردیا گیا۔ پائلٹ اسٹاف سمیت دو سو چوّن ایرانی، عرب امارات کے تیرہ شہری، دس ہندوستانی، چھے پاکستانی، چھے یوگوسلاوی اور ایک اٹلی کا باشندہ اس میں سوار تھے۔ جہاز کو ایرانی سمندری حدود میں ہی نشانہ بنایا گیا(2)۔


امریکی ذرائع نے ابتدائی ردعمل میں یہ کہا کہ نشانہ بنایا جانے والا جہاز، فوجی تھا جس کا مقصد "ونسینس" پر حملہ کرنا تھا، لیکن جب بعد میں واضح ہو گیا کہ یہ مسافر بردار طیارہ تھا تو بھی امریکی ذرائع نے اپنے قبیح اقدام کے جواز میں بیان دیا اور مسلح افواج کے سربراہ  نے کہا: "امریکی بحری بیڑے کا اقدام اپنی حفاظت کے لیے تھا"(3)۔


کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ "اس مسافر بردار ایرانی ہوائی جہاز پر حملہ اس لیے کیا گیا تاکہ جنگ کے آخری سالوں میں امریکہ اور اس حواریوں کی سیاست کو عملی جامہ پہناتے ہوئے عراق کے مقابلے میں ایران کی کامیابی اور فتح کو روکا جا سکے۔ 1987 کے اوائل میں جب کئی محاذوں پر عراق کے خلاف ایران کو کامیابی حاصل ہوئی اور عراق کی شکست کا احتمال بھی موجود تھا تو امریکہ سمیت دیگر چند ممالک کی یہ کوشش تھی کہ جیسے بھی ہو ایران کو فتحیاب نہ ہونے دیا جائے ورنہ خطے میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا(4)۔


اس اقدام کے مقابلے میں ایرانی حکومت نے اعلان کیا کہ امریکا کو اس مجرمانہ اقدام کی قیمت چکانا ہوگی۔ اور پھر اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کے نام لکھے گئے خط میں ایران نے اس بات کا تقاضا کیا کہ مختلف پہلوؤں سے جائزہ لینے کے لئے تحقیقاتی ٹیم بھیجی جائے (5)۔


اس دردناک سانحہ پر تعزیت پیش کرنے کے لیے امام خمینی رح نے جو خط آیت اللہ حسین علی منتظری کے نام لکھا اس میں جنگ بندی کے حوالے سے کی جانے والی چہ میگوئیوں کے رد عمل میں امام خمینی رح نے فرمایا: "امریکہ سے جنگ کرنے کے لیے سب تیار رہیں، جنگی معاملات میں کسی بھی قسم کی غفلت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ خيانت شمار ہوگی"، نیز امام نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ اپنی حقیر جان کو بھی جنگ لڑنے والے سپاہیوں پر قربان کرنے کو تیار ہیں(6)۔


اس سفاکانہ واقعہ پر اعلی ملکی دفاعی کمیٹی، شورائے اسلامی کے خصوصی کمیشنز اور ملکی ایئر لائنز کے ادارے نے اپنے اپنے رد عمل کا اظہار کیا(7)۔ اس واقعے کے بعد ملک بھر میں ایک روزہ سوگ کا اعلان کر دیا گیا جبکہ صوبہ ھرمزگان میں تین دن عمومی عزا کا اعلان ہوا(8) اور اسی طرح دیگر شہروں میں بھی لوگوں نے عزاداری برپا کی(9)۔


اس سانحہ کے چند گھنٹے بعد امریکی مسلح افواج کے سربراہ اور بحریہ کے سربراہ ویلیم کراؤ نے بحری جہاز ونسینس کے اقدام کے جواز میں چھے دلیلیں ذکر کیں:


1: مذکورہ ہوائی جہاز کو پہچاننے کے لئے چار منٹ سے زیادہ وقت نہیں تھا۔

2: بحری بیڑے نے اس ایرانی مسافر بردار جہاز کو لڑاکا طیارہ سمجھتے ہوئے حملہ کیا۔

3: یہ مسافر بردار طیارہ اپنے بین الاقوامی روٹ سے ہٹا ہوا تھا۔

فلم "موج مردہ" جو ابراہیم حاتمی کیا نے 2000 میں بنائی(21) جس کا مرکزی خیال جنگی بحری جہاز ونسینس ہے۔

4: اس طیارے کی رفتار زیادہ اور اونچائی کم تھی۔


5: جہاں یہ سانحہ پیش آیا وہ جنگی علاقہ جنگی اور غیر فوجی پروازوں کے لئے خطرات زیادہ تھے۔


6: جب اور جہاں یہ سانحہ رونما ہوا وہاں اس وقت ایرانی لڑاکا طیاروں کی پروازیں جاری تھیں۔


اگلے روز ان چھے دلیلوں کا جواب دینے کے لئے ایرانی بحریہ کے سربراہ بریگیڈیئر منصوری نے کیہان اخبار کو انٹرویو دیا اور اس میں اس واقعہ کے فنی پہلو بھی بیان کیے۔ ادلہ جوابات کچھ ہوں تھے:


1: اس طیارے کو دس بج کر دس  منٹ پر اڑنے کی اجازت ملی تھی، جب کہ امریکی بیڑے نے اس کو دس بج کر چوبیس منٹ پر نشانہ بنایا تو اس حساب سے امریکی بیڑے کے پاس پہچاننے کے چودہ منٹ کا وقت تھا، نہ کہ چار منٹ کا۔


2: اس طیارے میں"سی چارلی" نامی راڈار نصب تھا جو عمومی طیاروں میں نصب ہوتا ہے تو اس حوالے سے ونسینس کی جانب سے غلط فہمی کا کوئی امکان ہی نہیں رہتا۔


3: جہاں طیارہ گرا اس کے عین اوپر بین الاقوامی ہوائی راستہ ہی تھا۔


4: اڑان بھرتے وقت طیارے کی رفتار بھی مطلوبہ معیار کے عین مطابق تھی یعنی چودہ ہزار فٹ؛


5: خلیج فارس کا علاقہ ہرگز جنگی علاقہ نہیں تھا، اس کا ثبوت یہ ہے کہ بین الاقوامی کمپنیاں خلیج فارس کو غیر جنگی علاقہ کے طور استعمال کرتے ہوئے وہاں کام کر رہی تھیں۔


6: جب اور جہاں حادثہ رونما ہوا تو وہاں جنگی جہازوں کی پرواز بالکل بھی نہیں تھی۔


بالآخر ایرانی فضائیہ کے سربراہ نے وینسنس بحری بیڑے کی جانب سے نچلی سطح پر بہت تیزی سے حرکت کرنے والے  16 عراقی جنگی جہازوں کو تحفظ فراہم کرنے اور اس کے مدمقابل ایران کے مسافر بردار جہاز کو نشانہ بنائے جانے کے سانحے کو ایک سوچا سمجھا منصوبہ قرار دیاا(10)۔


واقعہ کے بعد ایرانی حکومت نے اس مسئلے کو ملک کے بین الاقوامی ایئر لائنز کمیٹی (ایکاو)  میں پیش کیا۔ ایکاو کمیٹی اس سے پہلے بھی ملتے جلتے واقعات پر ذمہ دار ممالک کی مذمت کرتی تھی لیکن اس سانحے پر ایران کی طرف مسئلہ اٹھانے سے پہلے اس نے کوئی اقدام نہیں کیا اور نہ ہی ونسینس کے اس جرم کو درست یا نا درست قرار دینے کے حوالے سے ایکاو کی رپورٹ پر کوئی اظہار خیال کیا۔


اس کمیٹی نے اس واقعہ کو حتی بین الاقوامی ایئر لائنز کنونشن (شکاگو کنونشن) کی خلاف ورزی بھی قرار نہیں دیا(11)۔


اس واقعہ کے دو دن بعد اسلامی جمہوریہ ایران نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نام خط لکھا جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ اس معاملے پر تحقيق کرنے کے لیے ہنگامی اجلاس بلایا جائے اور ایرانی اور امریکی نمائندوں کا موقف سننے کے بعد (ریزولوشن) بل پیش کیا جائے۔ لیکن عملی طور پر اس افسوسناک واقعہ پر سوائے اظہار افسوس کے اور کچھ نہیں کیا گیا(12)۔


امریکی حکومت نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنے یا ہرجانہ بھرنے کی بجائے شہداء کے لواحقین کو بذات خود مالی امداد دینے کا اعلان کیا لیکن ایرانی حکومت نے اس پیش کش کو مسترد کر دیا نیز 17 مئی 1989 کو بین الاقوامی عدالت میں شکایت درج کروا دی(13)۔ آخر کار 8 فروری 1995 کو جب امریکہ کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں ایرانی کیس دائر تھا، ایران نے 131800000 ڈالر کے معاہدات ہونے پر، کہ جن میں سے 61000000 شہداء کے لواحقین کے لیے تھے، اپنی شکایت اور کیس واپس لے لیا اور یوں ایرانی ایئر بس کا کیس بنا کسی اظہار رائے کے ختم ہوگیا(14)۔


اس سانحہ کی خبر کو دنیا بھر اخبارات اور نیوز میں اہم خبر کے طور پر نشر کیا گیا۔ انگلینڈ، جرمنی، روس اور سویئڈن کے میڈیا اور مطبوعات نے امریکی ذرائع کے بیانات میں ترديد ظاہر کی(15)۔ امریکی کانگریس کے بعض نمائندوں، نامزد افراد اور فوجی حکام نے مطالبہ کیا کہ اس سانحہ کے ذمہ دار امریکی ذرائع وضاحت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ معافی مانگیں۔(16)۔ شام، لیبیا، روس، چین، ترکی، جاپان، فرانس، پولینڈ، یونان، سوئٹزرلینڈ، مغربی جرمنی اور نیکارا گوا کی حکومتوں، عوام اور ذرائع نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے امریکا کو اس کا ذمہ دار ٹہرایا(17)۔ جب کہ اس کے مقابلے میں اٹلی، ہالینڈ، اور مصر نے اپنے بیانیہ میں نہ صرف امریکہ کی مذمت نہیں کی بلکہ یہ کہا کہ اصلی قصور وار کو ڈھونڈنے کے لئے مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔


خلیج فارس میں ونسینس بیڑے کا مشن ختم ہونے پر اس کے کیپٹن ولیم راجرز کو امریکی حکام نے میڈل سے نوازا اور اس کی خدمات کو سراہا(19)۔


اس سانحہ پر کئی کتابیں لکھی گئیں جیسے "پرواز 655 نماد حقوق بشر آمریکایی" جسے برہان کالج کی ایک ٹیم نے 2019 میں قلمبند کیا؛ اسی طرح "عروس ونسینس" جواد علی زادہ نے 2016 میں لکھی۔ 2015 میں بیژن کیا صاحب نے "آدم خور" ، 2015 میں محمدرضا آرین فر نے "مکث روی ريشتر ھفتم"، 2013 میں خدیجہ امیر خانی نے "شلیک کن و فراموش کن"، 2014 میں مجید پور ولی کلشتری نے "چلچلہ کاغذی"، 2007 میں حبیب احمد زادہ نے "بیست سال پس از فاجعہ سقوط ایر باس"، 2006 میں مناف یحیی پور نے "ایرباس_300"، 2015 میں فائزہ امیر خانی نے "عقب نشینی"، 2018 میں منصور نعیمی نے "پس از پرواز"، 1996 میں ولیم راجرز نے "مرکز طوفان: روایت شخصی از تروريسم و تراژدی" لکھی اور ان کتابوں کو زیور طبع سے آراستہ کیا گیا(20)۔

 

حوالہ جات:
1۔ جناب سید داؤد آقائی، "چالش ھای حقوقی فراروی ایران و آمریکا بر سر پروندہ ایر باس"، مجلہ مطالعات بین الملل، 2003، ش 22، ص 11۔

2۔سابق، ص 12_13۔

3۔ جناب صالح پیش رباط رضایی، "حادثہ ایرباس از آغاز تا پایان"، فصلنامہ نگین ایران، 2003، ش5، ص7۔

4۔ سابق، ص8۔

5۔ اخبار: روزنامہ جمہوری اسلامی، اتوار 5 جولائی 1988، ش2637، ص9۔

6۔ موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی(رہ)، صحیفہ امام، ج 21، طبع پنجم، تہران، دسمبر 1989۔

7۔ اخبار: روزنامہ جمہوری اسلامی، اتوار 5 جولائی 1988، ش2637، ص 10۔

8۔ سابق، ص1 اور 10۔

9۔ سابق، 9، 11، 12۔

10۔ "باز خوانی گفتگوی شھید ستاری دربارہ جنایت 12 تیر"، اخبار: روزنامہ نامہ وطن امروز، سوموار 3 جولائی 2023۔

11۔ جناب سید داؤد آقائی، سابق، ص13۔

12۔ جناب صالح پیش رباط رضایی، "حادثہ ایرباس از آغاز تا پایان"، فصلنامہ نگین ایران، 2003، ش5، ص11۔

13۔ جناب سید داؤد آقائی، سابق، ص13۔14۔

14۔ سابق، ص 30، 31۔

15۔ اخبار: روزنامہ جمہوری اسلامی، اتوار 5 جولائی 1988، ش2637، ص 3۔

16۔ سابق۔

17۔ سابق، ص11۔

18۔ سابق۔

19.https://www.mizanonline.ir/001oeh

20.https://www.ibna.ir/vdceex8x7jh8wni.b9bj.html

21.http://www.sourehcinema.com/title/title.aspx?id=138109262114