آپریشنز
آپریشن کربلا 8
ناهید خدایی
3 دورہ
کربلا 8 آپریشن 7 اپریل 1987ء کو یا صاحب الزمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے کوڈ سے اور عراقی فورسز کو تباہ اور آپریشن کربلا 5 میں قبضہ شدہ پوزیشنوں کے استحکام کے لئے، سپاہ پاسداران کی زمینی فورسز کے ذریعے بصرہ کے مشرقی آپریشنل علاقے میں پانچ دنوں میں انجام پایا اور دشمن کو جانی اور مالی نقصان پہنچنے کے باوجود مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہو سکے۔
آپریشن کربلا 5 کے بعد ایران اور عراق کے درمیان محاذوں کے حالات نے اِس علاقے میں آپریشن جاری رکھنے کو لازم کردیا تھا۔ آپریشن کربلا 5 کو مکمل کرنے کے اہم ترین اہداف میں دوعیجی نہر سے جاسم خط کی طرف پیش قدمی، اس خط کو توڑنے کی کوشش اور زوجی نہر کی طرف آپریشن کو جاری رکھنا اور اُس جگہ دفاعی خط تشکیل دینا اور اِن سے سیاسی اور فوجی فوائد حاصل کرنے کو تشخیص دیا گیا۔ اس لئے اِس علاقے میں آپریشن کو دو ادوار میں انجام دیا گیا۔ پہلا دور جو 4 مارچ 1987ء تک جاری رہا اور اِسے کربلا 5 کا تکمیلی آپریشن کہا گیا، دشمن کے الرٹ رہنے اور زمین کی پیچیدگی کے سبب کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کرسکا۔ دوسرا دور آپریشن کربلا 8 ڈیزائن کیا گیا اور کربلا 5 تکمیلی آپریشن کے چھتیس دنوں بعد انجام پایا۔
سپاہ نےشروع میں یہ سوچا کہ چند محدود کاروائیوں کے ذریعے زوجی نہر تک پہنچ کر قبضہ شدہ علاقوں کے خطوط کی بتدریج اصلاح اور تکمیل کرے لیکن موجودرکاوٹوں کو سامنے رکھتے ہوئے آپریشن کربلا 8 ڈیزائن اور دو سیکٹروں میں پلان کیا گیا تاکہ اِسے دو کیمپوں کے ذریعے انجام دیا جا سکے۔
7 اپریل 1987ء کو دوپہر 2 بج کر 5 منٹ پر، سپاہ کے دو کیمپوں کربلا اور قدس نے شلمچہ اور کربلا 5 کے اُسی آپریشنل علاقے میں 7 ڈویژنوں اور جنگی بریگیڈزکے استعمال کے ساتھ اور یا صاحب الزمانؑ کے کوڈ سے، بصرہ کے مشرق میں زوجی نہر پر قبضہ کرنے کے لئے آپریشن شروع کیا۔ عراقی فوج کو اِس آپریشن پر عمل درآمد کا علم تھا اور آپریشن شروع ہوتے ہی اُس نے تمام اگلے مورچوں کو اپنے مختلف ہتھیاروں کی زد میں لے لیا۔ شدید جنگ ہوئی اور پچاس عراقی ٹینک اور گاڑیاں تباہ ہو گئیں اور کل دو سو کے قریب عراقی فوجی پکڑے گئے۔
اس آپریشن کے تسلسل میں 33ویں المہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف، 27ویں محمد رسول اللہ ﷺ، 17ویں علی بن ابی طالب ؑ، 25ویں کربلا، 19ویں فجر، 10ویں سید الشہداء ؑ، 8ویں نجف اور 31ویں عاشورا ڈویژن شریک ہو گئے۔ تاہم نہر کے مغرب میں مچھلی کی افزائش کا کل دو مربع کلومیٹر علاقہ قبضے میں آیا اور تقریباً دو ہزار عراقی فوجی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ نیز دو عراقی طیارے بھی گر کر تباہ ہوئے۔ ایرانی فورسز کے بھی تین سو افراد شہید ہوئے۔
آپریشن کربلا 8 تین مراحل میں انجام دیا گیا اور پانچ دن تک جاری رہا۔ لیکن وہ اپنے مقصد تک نہیں پہنچ سکا اور کامیاب نہیں ہوا۔ اس آپریشن کے دوران 8 اور 9 اپریل 1987ء کو عراقی فوج نے کیمیائی ہتھیاروں اور مسٹرڈ گیس(Mustard Gas) کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں تقریباً دو سو ایرانی زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ 10 اپریل 1987ء کو آدھی رات کے وقت خرمشہر اور شلمچہ کے علاقے میں بھی اعصابی گیس اور تھوڑی مقدار میں مسٹرڈ گیس سے حملہ کیا جس سے متعدد لوگ شہید اور تین سو کے قریب زخمی ہوئے۔ عراقی فوج نے اِس علاقے میں ایرانیوں پر پہلی بار سارین گیس کاتیوشا راکٹوں کے ذریعے پھینکی اور اِس کے بعد حملہ شروع کردیا۔
عراقی فوج کے بار بار حملوں کے بعد 11 اپریل 1987ء کو سپاہ کے یونٹ قبضے میں لی گئی پوزیشنوں سے پیچھے ہٹ گئے۔ خاتم الانبیاء ﷺ کے کیمپ نے اعلان کیا کہ اس آپریشن کو انجام دینے کی ایک وجہ ایران کے اقتصادی وسائل پر حملہ کرنے اور خلیج فارس میں جہازرانی کی سکیورٹی کو نقصان پہنچانے میں عراق کی شرارتوں کا جواب دینا ہے۔ اس آپریشن کے دوران عراقی فوج نے خرمشہر واٹر ٹریٹمنٹ سینٹر پر بھی کیمیائی حملہ کیا اور اس کے زیادہ تر عرب ارکان شہید اور زخمی ہوئے۔
عراق کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال نے ایرانی فورسز کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ 1983ء سے جنگ کے خاتمے تک عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی پیداوار اور استعمال میں حیران کن اضافہ ہوا۔ زیادہ تر حملے کربلا 5 اور کربلا 8 آپریشنز کے دوران بصرہ کے مشرقی علاقے میں ہوئے۔
تقریباً ایک مربع کلومیٹر کے علاقے پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لئے عراقی دباؤ اپنی نوعیت کا بے مثال واقعہ تھا۔
قضہ کرنے کا دباؤاپنی نوعیت کا منفرد واقعہ تھا۔ دشمن نے بصرہ کے مشرق میں جمہوری اسلامی کی فوج کی جدید پیش قدمی سے باخبر ہونے اور عراقی افواج کو پے در پے ہونے والے نقصانات کے بعد یہ طے کر لیا کہ بنیادی اقدامات اور طاقت کے زور پر جمہوری اسلامی کے جنگ کے منصوبہ سازوں اور عہدیداروں کو بصرہ کے مشرق میں پیش قدمی جاری رکھنے سے مایوس کر دے۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی نے اس طرح سے خبر دی:’’ایران کے نئے کربلا 8 آپریشن کے مقاصد، جو کہ خالصتاً فوجی ہیں، محدود نظر آتے ہیں۔ ایران نے بلا شبہ اس جنوبی حصے کو حملے کے لیے منتخب کیا ہے تاکہ وہاں دشمن کی خطوط کو مضبوط کرنے سے روکا جا سکے۔‘‘
درحقیقت فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ یہ بتا رہی تھی کہ یہ آپریشن، اس علاقے میں ایران کی جاری کوششوں کے سلسلے میں اور بصرہ کی طرف آپریشن انجام دینے کی منصوبہ بندی، ایک خاص معنی اور مفہوم رکھتی ہے۔
آپریشن کربلا 8 کے بعث پارٹی کے قیام کی 48ویں سالگرہ کی تقریبات کے ساتھ ہم زمان ہونا اس بات کا باعث بنا کہ عراق فوراً اِس آپریشن کے نتائج کو کم اثر دکھانے کے لئے سیری جزیرے پر تیل کی تنصیبات، جو ایرانی تیل کی برآمدات میں بہت اہم تھا، پر حملہ کرے اور اُسے شدید نقصان پہنچائے، اس طرح کہ ایک لمبے عرصے تک اس کی بندرگاہ سے استفادہ کرنا ممکن نہیں تھا۔